محبت کا آخری سفر
محبت کا آخری سفر از پری وش تالپور قسط نمبر3
"عائشہ کس حالت میں گھر پہنچی تھی یے صرف وہی جانتی تھی کمرے میں آکر وہی فرش پر بیٹھ کر بے اختیار رونے لگی اور یہاں کون تھا جو اس کے رونے پر دوڑا چلا آتا کون تھا اس کا اپنا نا ماں باپ نا دادی اور باقی صرف نام کے رشتے تھے کون آکر آنسو پونچھتا وہ بے تحاشا رو رہی تھی رات کا اندھیرا گہرا ہو رہا تھا اور اس کی سسکیوں میں بھی اضافہ ہوتا جا رہا تھا " "اس نے جب حور فاطمہ کا ذکر کیا تھا تو اس کی ہنسی کا مطلب وہ اب جان پائی تھی اس کی بے رخی بھی سمجھ آگئی تھی جب اس نے ایسے مردوں سے نفرت کا اظہار کیا تھا" "دل ٹوٹنے کا درد کیا ہوتا ہے وہ اب اس سے بھی واقف ہوگئی تھی ہر غم سہا تھا مگر یے ابھی باقی تھا اس کی زندگی میں اب کیا باقی تھا مگر وہ اتنی نا سمجھ نہی تھی کے خود کو ختم کر دیتی اور دشمنوں کو خوش کرتی اس نے وعدہ لیا خود سے کے وہ اب کمزور نہیں پڑے گی" "دشمنوں کے سامنے سر اٹھا کر جیے گی " "بہت سارا رونے کے بعد وہ اٹھی وضو کیا نماز پڑھی دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے تو آنسوں قطار سے بہہ نکلے" "اے اللہ پاک رحم کر مجھ پر ایسا کیا گناہ ہوا ہے مجھ سے جو اتنی کڑی سزائیں مل رہی ہیں نصیب میں پروردگار میں نے آج تک کسی کا دل نہیں دکھایا کسی کو تکلیف نہیں پہنچائی پھر میری ساتھ ہر کوئی برا کیوں کرتا ہے آخر کب تک اتنے درد برداشت کرتی رہوں گی کتنی آسانی سے کوئی میرے دل سے میری جذبات سے کھیل گیا کتنی آسانی سے کوئی مجھے بیوقوف بنا گیا" "مجھے حوصلہ دے مجھے صبر دے میرا تیرے سوا اور کوئی نہیں ہے میں نے اپنی ہر بات صرف تجھ سے شیئر کی تو غفورالرحیم ہے تو وہ سہارا ہے جو کبھی اپنے بندوں کو اکیلا نہیں چھوڑتا ہے ہمیشہ ساتھ نبھاتا ہے مجھے ایک بار پھر صبر دے اور اس دنیا میں اکیلے چلنے کا حوصلہ دے آمیں" "اس نے آنسو بھری آنکھوں سے اپنے دونوں ہاتھ گالوں پر پھیرے اور سچ میں وہ بہت پر سکون ہوگئی تھی آنسو پونچھ کر جائے نماز سمیٹی اس کا فون کب سے بج رہا تھا اسے پتا تھا کس کا ہوگا اس نے بنا کچھ سوچے وہ سم توڑ کر پھینک دی پھر بنا کچھ اور سوچے کچھ آیتیں پڑہ کر سوگئی" "صبح فجر کی نماز پڑھنے کے بعد دوبارہ نہیں سوئی تھی تسبیح اٹھا کر باہر نکل آئی اور بہت دیر تنہا ویرانے میں سیڑھیوں پر بیٹھی رہی اس کے آنسو اب بلکل تھم چکے تھے مگر اس کا اندر بلکل خالی تھا کسی گہرے دکھ کی وجہ سے سورج کی ہلکی کرن نمودار ہوئی تو وہ اسی خاموشی سے اٹھی اپنے لیے ناشتہ بنایا اسی خاموشی سے کھایا اس کے چہرے پر گہرا دکھ صاف ظاہر تھا مگر اس نے خود کو اللہ کے سپرد کر دیا تھا اپنے فیصلے اس کے حوالے کیے وہی بہتر کرنے والا تھا" "وہ تیار ہوکر نکلی تو بنا چاچاوں کی گاڑی کی طرف دیکھے آگے بڑہ گئی روز وہ اس لیے رکتی کہ شاید آج کوئی باپ کی طرح اس کے سر پر ہاتھ رکھ دے مگر آج اس نے ضرورت ہی محسوس نا سمجھی ان کے سہاروں کی"